آٹو موبائل کمپنی رینالٹ 2018ء میں اپنی گاڑیاں متعارف کرائے گی

       آٹو موبائل کمپنی رینالٹ 2018ء میں اپنی گاڑیاں متعارف کرائے گی

رینالٹ ڈسٹر دنیا بھر میں اپنے فیچرز اور متوازن قیمت کی وجہ سے مشہور ہے۔ فرنچ آٹو موبائل کمپنی رینالٹ پاکستان میں اپنی گاڑیاں متعارف کرانے کا پلان رکھتی ہے، اس مقصد کیلئے رینالٹ کا دبئی کی ایک کمپنی کے ساتھ اشتراک بھی متوقع ہے اور اس سلسلے میں دونوں کمپنیز کے درمیان ایم او یو سائن کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رینالٹ پاکستانمیں اپنا مینو فیکچرنگ پلانٹ بھی لگانا چاہتی ہے تاکہ کم قیمت رینالٹ کو پاکستان میں متعارف کرایا جا سکے۔ فرنچ آٹو موبائل کمپنی 2018ء تک اپنی گاڑیاں پاکستان میں متعارف کرائے گی،اس سلسلے میں کراچی میں مینو فیکچرنگ پلانٹ لگایا جائے گا جس سے 50000 کے قریب گاڑیوں کی تیاری ممکن ہو سکے گی۔
رینالٹ کا ماڈل رینالٹ ڈسٹر دنیا بھر میں اپنے فیچرز کی وجہ سے مشہور ہے۔ کمپنی کو پاکستان میں درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے حکام کی وزیر اسحاق ڈار سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس گاڑی کی پاکستان میں قیمت تقریباً 15 لاکھ رکھی جائے گیجبکہ انڈیا میں اس کی قیمت 10 لاکھ ہے۔

انسانی یادداشت میں اضافے کیلئے مائیکرو چِپ ایجاد

              انسانی یادداشت میں اضافے کیلئے مائیکرو چِپ ایجاد

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ماہرین نے ایک ایسی باریک چِپ ایجاد کرلی ہے جس سے انسانی یادداشت میں 30؍ فیصد تک اضافہ ہو جاتاہے۔حالیہ برسوں میں تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ حشرات الارض میں ’’دماغ کے پروستھیسس‘‘ کو یادداشت بہتر بنانے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے وہ ذہنی سرگرمیاں زیادہ بہتر انداز سے انجام دے سکتے ہیں
تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انسانوں کیلئے بھی اس طرح کی کوئی چپ ایجاد کی گئی ہو۔محققین نے پہلی مرتبہ ایک ایسی تکنیک متعارف کرائی ہے جس کی مدد سے یہ چپ اس انداز کی نقل کرکے امور سر انجام دیتی ہے جس انداز سے دماغ قدرتی طور پر سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے سوسائٹی آف نیورو سائنسز کے سالانہ اجلاس میں بتایا ہے کہ دماغ کے ایک مخصوص حصے ’’ہِپو کیمپس ریجن‘‘ کو اس چپ کی مدد سے متحرک کرنے کے نتیجے میں دماغی صلاحیت میں 30؍ فیصد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔
یہ چپ دماغ میں اسی طرح نصب ہوتی ہے جیسے کسی اپاہج شخص میں مصنوعی اعضا نصب کیے جاتے ہیں۔ محققین نے اپنے تجربات کیلئے 20؍ رضاکاروں کی مدد حاصل کی اور ان پر مختلف انداز سے تحقیق کی، ان کے دماغ میں الیکٹروڈس کے ذریعے ہپو کیمپس ریجن کو متحرک کیا گیا اور نتائج حاصل کیے گئے۔
تجربات کے سلسلے میں ہر شخص کو مختلف تصاویر دکھائی گئیں اور 75؍ سیکنڈز کے بعد ان ہی تصاویر کے متعلق سوالات کیے گئے، زیادہ تر افراد نے سوالوں کے بہتر اور فوری جوابات دئیے جن کی مدد سے سائنسدانوں نے اعداد و شمار نوٹ کیے۔تجربات کے سلسلے میں رضاکاروں کو مائیکرو الیکٹرک شاک بھی دیئے گئے۔
تحقیق میں شامل یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سائنسدان ڈونگ سنگ نے بتایا ہے کہ یادداشت کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے ہم نیورل کوڈ تحریر کر رہے ہیں اور یہ کام پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔کامیاب ٹرائل کی مدد سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ Brain Implant کی مدد سے یادداشت میں 30؍ فیصد تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

چربی پگھلانے کیلئے پانی میں یہ ایک قدرتی غذا ملا کر پئیں، ایک ماہ میں ہی دنیا بدل جائے گی

چربی پگھلانے کیلئے پانی میں یہ ایک قدرتی غذا ملا کر پئیں، ایک ماہ میں ہی دنیا بدل جائے گی

اگر جسم پر اضافی چربی موجود ہوتو یہ بہت بری لگتی ہے اور اس کے نجات کے لئے ہم کئی طرح کے طریقے آزماتے ہیں۔آئیے آپ کو چربی پگھلانے کے لئے انتہائی آسان نسخہ بتاتے ہیں جسکے ایک مہینے استعمال سے ہی آپ کی دنیا بدل جائے گی۔
دنیا کی مشہور خاتون Danette Mayجو ورزشیں سکھانے کے لئے شہرت رکھتی ہے نے اپنی ایک حالیہ ویڈیو میں لوگوں کومشورہ دیاہے کہ وہ کم از کم28دن تک لیموں کا استعمال روز کریں۔اس کا کہنا ہے کہ لیموں ایک الکلائن غذا ہے اور اس کے استعمال سے جسم سے فاسد اورزہریلے مادے نکل جاتے ہیں اور وزن میں حیرت انگیز کمی واقع ہوتی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ لیموں والاپانی جگر کو صاف کرکے ہمارے خون کو صاف ستھرا کردیتا ہے۔اس کے ساتھ ہمارے معدے سے زہریلی گیسیں بھی نکل جاتی ہیں اور بدہضمی کا خاتمہ ہوتا ہے۔آپ کو بس یہ کرنا ہے کہ صبح سویرے اٹھتے ہی آدھا لیموں پانی میں نچوڑنا ہے اور یہ گلاس پی لینا ہے۔
یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ آپ لیموں پانی کا استعمال صبح سویرے کریں اور اسے پینے سے قبل خالی پیٹ ہوں۔یاد رہے کہ ٹھنڈے پانی میں لیموں نہ ڈالاجائے بلکہ تازہ پانی استعمال کیا جائے اور اگر پانی کو نیم گرم کرلیا جائے تو یہ اور زیادہ فائدہ دے گا۔

لیموں کے فوائد تو آپ نے بہت سنے ہونگے مگر اس کا ایک ایسا نقصان جس کے بعد آپ لیموں استعمال کرنے سے پہلے سوبار سوچیں گے

لیموں کے فوائد تو آپ نے بہت سنے ہونگے مگر اس کا ایک ایسا نقصان جس کے بعد آپ لیموں استعمال کرنے سے پہلے سوبار سوچیں گے

لندن(نیوزڈیسک)آپ نے لیموں پانی کے فوائد تو سن رکھے ہوں گے لیکن اس کا ایک ایسا نقصان بھی ہے جس کے بارے میں آپ کو علم نہیں ۔اس نقصان سے کیسے بچا جاسکتا ہے آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ لیموں پانی ہمارے دانتوں کے انیمل کے لئے بہت خطرناک ہوتا ہے اور اس کے مستقل استعمال سے ہمارے دانتوں کے اوپر تہہ کمزور پڑجاتی ہے جو کہ دانتوں کے لئے بہت خطرناک ہے۔اگر آپ نیم گرم پانی میں لیموں پی رہے ہیں تو یہ مزید خطرناک بات ہے کیونکہ گرم پانی کیمیکل ری ایکشن کو تیز کردیتا ہے۔
لہذا لیموں پانی پیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ پانی ٹھنڈا ہو۔ اسی طرح اس نقصان کو کم کرنے کا ایک طریقہ لیموں پانی پینے کے بعد برش کرنا ہے لیکن یاد رہے کہ صبح اٹھنے کے بعد لیموں پانی پینے کے بعد فوری طور پر برش نہ کریں
بلکہ کم از کم ایک گھنٹے کا وقفہ دیں ورنہ دانتوں کے انیمل کا جلد خراب ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ایک کام اور بھی کیا جاسکتا ہے کہ لیموں پانی کو کسی سٹرا کے ساتھ پیا جائے تاکہ وہ کم سے کم دانتوں کو لگے۔

وہ 2 چیزیں جو پاکستانیوں کو کھانے میں بے حد پسند ہیں اگر اکٹھی کھائی جائیں تو کبھی کینسر کا شکار نہ ہوں گے، جدید تحقیق میں سائنسدانوں کا ایسا انکشاف کہ جان کر پاکستانیوں کو بے حد خوشی ہوگی

وہ 2 چیزیں جو پاکستانیوں کو کھانے میں بے حد پسند ہیں اگر اکٹھی کھائی جائیں تو کبھی کینسر کا شکار نہ ہوں گے، جدید تحقیق میں سائنسدانوں کا ایسا انکشاف کہ جان کر پاکستانیوں کو بے حد خوشی ہوگی

ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ تیز مرچ اور ادرک والے سالن پسند کرتے ہیں مگر کچھ لوگ مرچوں کی جلن برداشت نہیں کر پاتے۔اب سائنسدانوں نے مرچ اور ادرک کا ایک ایسا فائدہ بتا دیا ہے کہ سب لوگ ہی ان دونوں چیزوں کو ملا کر کھانا شروع کر دیں گے۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق امریکن کیمیکل سوسائٹی کے ماہرین نے اپنی نئی تحقیق میں بتایا ہے کہ ”سرخ مرچ اور ادرک کا آمیزہ ایک ایسے مرکب کو جنم دیتا ہے جو کینسر کے خلاف انتہائی مدافعت رکھتا ہے۔“
اس سے قبل سرخ مرچوں پر کی گئی کئی تحقیقات میں بتایا گیا تھا کہ ان میں پایا جانے والا کیپسیسن (Capsaicin)نامی عنصر کینسر کے مرض میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔  کیمیکل سوسائٹی کے ماہرین ان پرانی تحقیقات کے نتائج کو ذہن میں رکھ کر تجربات کر رہے تھے۔
اس دوران ان پر منکشف ہوا کہ اگر سرخ مرچ کو ادرک کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جائے تو کیپسیسن نامی یہ عنصر کینسر کے خلاف مدافعت کا باعث بنتا ہے۔ ماہرین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سرخ مرچ کے عنصر کیپسیسن اور ادرک کے عنصر 6جنجرگول (6-gingergol)کو یکجا کیا جائے تو یہ کینسر کا بہترین علاج بن جاتے ہیں۔
ماہرین نے اس تحقیق میں پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا چوہوں پر تجربات کیے۔ انہوں نے چوہوں کو تین گروپوں میں تقسیم کیا۔ ان میں سے ایک گروپ کو صرف کیپسیسن اور ایک گروپ کو صرف 6جنجرگول دیتے رہے اور تیسرے گروپ کو دونوں عنصر ملا کر دیئے جاتے رہے۔
کئی ہفتے بعد ماہرین نے ان کے مرض کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ جن چوہوں کو کیپسیسن دیا جاتا رہا تھاان سب میں مرض بہت زیادہ شدید ہو چکا تھا۔ جن چوہوں کو صرف 6جنجرول کھلایا جاتا رہا ان میں سے نصف کے مرض میں اضافہ ہوا لیکن ان کے برعکس جن چوہوں کو دونوں عناصر کا آمیزہ دیا جاتا رہا ان میں سے صرف 20فیصد چوہوں کے مرض میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔

مجھےمیری نو جوان بھتیجی مشکو ک نظر آرہی تھی تو میں نے فیس بک اکا ئو نٹ بنا کر اس سے دوستی کر لی ، جلد ہی ایسا انکشاف ہوا کہ خا تون کہ پا ئو ں تلے زمین نکل گئی کہ میری ہی بھتیجی میرے ساتھ۔۔۔۔

مجھےمیری نو جوان بھتیجی مشکو ک نظر آرہی تھی تو میں نے فیس بک اکا ئو نٹ بنا کر اس سے دوستی کر لی ، جلد ہی ایسا انکشاف ہوا کہ خا تون کہ پا ئو ں تلے زمین نکل گئی کہ میری ہی بھتیجی میرے ساتھ۔۔۔۔

 اپنی نوعمر بھتیجی کی مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے ایک خاتون نے مرد کے نام سے فیس بک اکاؤنٹ بناکر اس سے دوستی کرلی، مگر جلد ہی ایک ایسا انکشاف ہو گیا کہ بیچاری خاتون کے پاؤں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔
یہ ناہنجار بھتیجی اپنی آنٹی کے قتل کا منصوبہ بنائے بیٹھی تھی۔دی مرر کی رپورٹ کے مطابق پیٹر اولیمز نامی خاتون نے یہ حیران کن انکشاف چینل 4 کیڈاکومنٹری ’مائی آن لائن نائٹ میئر‘ میں کیا۔ پیٹرا نے بتایا کہ ان کی 19 سالہ بھتیجی مریسا ولیمز کی حرکات مشکوک دیکھ کر انہوں نے اس پر نظر رکھنے کے لئے
ایک مرد کے نام سے جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنایا اور اس سے دوستی کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ پیٹرا کے مطابق مریسا ان کے پاس ہی رہتی تھی لیکن وہ ناشکری اور جھگڑالو تھی اور کچھ دنوں سے بہت ہنگامہ کرنے لگی تھی۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے، لہٰذا سوشل میڈیا پر اپنی شناخت چھپا کر اس سے دوستی کر لی۔
پیٹرا نے بتایا کہ جلد ہی مریسا نے فیس بک پر ان سے دوستی پکی کرلی اور دونوں کے درمیان میسجز کا تبادلہ ہونے لگا۔ وہ اکثر بتاتی تھی کہ اپنی آنٹی کے گھرمیں اس کی زندگی بہت مشکلات کا شکار ہے اور وہ اپنے حالات سے بالکل بھی خوش نہیں۔ ایک موقع پر وہ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگی ”میں یہاں خود کو قید محسوس کرتی ہوں۔
مجھے لگتا ہے کہ میری آنٹی مجھے تم سے ملنے نہیں دے گی۔ میں تو چاہتی ہوں تم اس کی عصمت دری کردو۔ مجھے یہاں سے کسی طرح نکالو۔ مجھے اس سے سخت نفرت ہے۔ میں یہاں سب لوگوں سے نفرت کرتی ہوں۔ ہمارے ملنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تم میرے گھر آؤ اور میری آنٹی کو قتل کردو۔پیٹرا نے بتایا کہ انہیں یقین نہیں آرہاتھا
کہ یہ ان کی بھانجی ہی تھی جو ان کے خلاف ایسی خوفناک باتیں کہہ رہی تھی۔ ”وہ مجھے اپنا نوجوان دوست سمجھ کر وہ سب کچھ کہہ رہی تھی جو اس نے اپنے دل میں چھپارکھا تھا۔ وہ صرف مجھے ہی نہیں بلکہ میرے تمام گھر والوں اور حتیٰ کہ پالتو کتے کو بھی مروانا چاہتی تھی۔
وہ میرے قتل کے بارے میں اس قدر سنجیدہ تھی کہ اس نے یہ بھی بتایا کہ میرے بیڈ روم میں کس طرح داخل ہوا جاسکتا ہے اور کونسا وقت مجھے قتل کرنے کے لئے مناسب ہوگا۔ مجھے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی اور میں نے فوری طور پر 911پر کال کردی۔“ پیٹرا نے بتایا کہ ان کی شکایت پر مریسا کو گرفتارتو کیا گیا لیکن پروبیشن کے دوران وہ فرار ہوگئی اور تاحال مفرور ہے۔

مسکراہٹ بکھیرنے پر چہرہ دکھانے والا آئینہ تیار

                 مسکراہٹ بکھیرنے پر چہرہ دکھانے والا آئینہ تیار

ترکی کے ایک ڈیزائنر نے ایسا شیشہ تیار کیا ہے جس میں دیکھنے کے لیے مسکرانا ایک شرط ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ خوش رہنا اور مسکرانا صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے لیکن اکثر لوگ مشکلات اور دکھوں کی وجہ سے ہسنا اور مسکرانا بھول جاتے ہیں ایسے میں ترکی کے ایک ڈیزائنر نے مریضوں، غم و مشکلات سے متاثر لوگوں کے لیے ایسا شیشہ متعارف کیا ہے جس میں دیکھنے سے پہلے مسکرانا لازمی ہوگا۔
اس آئینے میں نت نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے فیشل ریکگنیشن فیچر ڈالا گیا ہے اور جب کوئی فرد اس میں دیکھے گا تو اس سے پہلے مسکرانا لازمی ہوگا، یہ فیچر چہرے کی مسکراہٹ کو جانچے گا جس کے بعد شیشے میں شکل دیکھی جاسکے گی ۔
اس شیشے کو ایک نظر دیکھا جائے تو یہ ٹیبلٹ کی طرح نظر آئے گا لیکن اسے دیوار پر لٹکانے کے ساتھ کسی جگہ رکھا بھی جاسکتا ہے۔
آئینے کے ڈیزائنر نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں بتایا کہ ان کے ایک قریبی دوست کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے جو شیشے میں اپنی شکل کافی افسردگی سے دیکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایسے تمام لوگوں پر تحقیق کی اور ایسا شیشہ بنایا جس میں جب دیکھا جائے تو مسکراہٹ بکھر جائے۔ اس دلچسپ شیشے کی قیمت 2 سے 3 ہزار ڈالر تک ہے۔

پاکستانی ماہرین نے گہرے زخم بھرنے والی مصنوعی جلد تیار کرلی

     پاکستانی ماہرین نے گہرے زخم بھرنے والی مصنوعی جلد تیار کرلی

کراچی: 
پاکستانی سائنسدانوں نے نینو ذرات پر مشتمل مصنوعی جلد تیار کی ہے جو تیزی سے خون کی نئی رگیں اگا کر جھلسی ہوئی جلد اور گہرے زخموں کو مندمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
لاہور میں واقع کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی (سی آئی آئی ٹی) کے ذیلی ادارے ’انٹر ڈسپلنری ریسرچ سینٹران بایومیڈیکل مٹیریلز (آئی آر سی بی ایم) کے ڈاکٹر محمد یار اور ان کے رفقائے تحقیق نے ہائیڈروجل میں زنک آکسائیڈ اور زنک پرآکسائیڈ نینو ذرات شامل کرکے اسے تجربہ گاہ میں آزمایا ہے۔ واضح رہے کہ ہائیڈروجل دو قدرتی پالیمرز کے تانے بانے سے تیار کیا گیا ہےجو فطرت میں عام پائے جاتے ہیں۔
اس متبادل جلد کے ذریعے پہلے سے موجود رگیں بڑھنا شروع ہوجاتی ہیں اور ان میں خون کا بہاؤ شروع ہوجاتا ہے۔ جب خون اور دیگر غذائی اجزا آگے پہنچتے ہیں تو زخم بھرنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح گہرے زخموں تک آکسیجن پہنچتی ہیں اور جلد و ٹشوز بننا شروع ہوجاتے ہیں۔ نئی رگیں بننے کا یہ عمل سائنسی زبان میں ’اینجیوجنیسِس‘ کہلاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد یار اور ان کی ٹیم نے ہائیڈروجل پر مبنی مصنوعی جلد کو مرغی کے ایسے بارآور (فرٹیلائزڈ) انڈوں پر آزمایا جنہیں آٹھ روز تک انکیوبیٹر میں رکھا گیا تھا۔ اس کے لیے انڈے کے بیرونی چھلکے کو احتیاط سے کاٹا گیا  اور اندر بنتے ہوئے چوزوں کی ایک  نفوذ پذیر جھلی پر ہائیڈروجل لگائے گئے ۔
یہ جھلی کوریوایلنٹوئک میمبرین کہلاتی ہے جو مصنوعی جلد کی افادیت ناپنے کا ایک مسلمہ طریقہ ہے۔ یہ طریقہ سی اے ایم ماڈل بھی کہلاتا ہے جو دنیا بھر میں استعمال ہوتا ہے۔ جھلی لگانے کے بعد احتیاط سے انڈوں کو بند کردیا گیا اور انہیں 37 درجے سینٹی گریڈ اور 55 فیصد نمی والے ماحول میں رکھا گیا۔ اس کے بعد جب انڈوں کو دوبارہ دیکھا گیا تو اس میں خون کی رگیں بننے لگی تھیں۔
واضح رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں کھال کے متبادل پیوند بہت کمیاب ہیں اور ان کی قیمت بہت ذیادہ ہے۔ اکثر اوقات یہ اپنی کارکردگی میں ناکام ہوجاتے ہیں ۔ ایسے پیوند کو عام حالات میں رکھا نہیں جاسکتا اور وہ بسا اوقات نئی رگیں بنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ لیکن پاکستانی ماہرین کی یہ نئی کاوش ایک جانب تو کم خرچ اور جدید ہے جبکہ دستیاب خام مال سے انہیں تیار کیا جاسکتا ہے اور یہ خون کی نئی رگیں بناسکتےہیں۔
حیرت انگیز ہائیڈروجلز
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا کہ تھری ڈی ہائیڈروجل بایوپالیمرز کی مچان (میٹرکس) اور نینوپارٹیکلز سے تیار کیے گئے ہیں۔ جیلی جیسے ہائیڈروجل اپنے اندر پانی کی بڑی مقدار سموسکتے ہیں۔ واضح رہے پالیمر پودوں سے حاصل کیا گیا ہے جو غیر مضر اور کم خرچ ہے۔ جبکہ دوسرا بایوپالیمر سمندری جانوروں کے خول سے اخذ کردہ ہے جنہیں پاکستان میں بے کار سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ پالیمرز سے ہائیڈروجل بناکر اس میں نینو ذرات بھرے گئے ہیں اور یوں پیوند مکمل ہوگیا۔ اس کے بعد پیوند کو کئی حیاتیاتی اور کیمیائی ٹیسٹ سے بھی گزارا گیا تاکہ اس کی افادیت کو جانچا جاسکے۔
زنک آکسائیڈ اور زنک پرآکسائیڈ نینو ذرات جسامت میں  چند نینو میٹرز تک رکھی گئی ہے۔ اسے یوں سمجھئے کہ اگر ایک میٹر دھاگے کے ایک ارب برابر ٹکڑے کئے جائیں تو ہر ٹکڑا ایک نینومیٹر کہلائے گا یعنی ایک نینومیٹر لمبا ہوگا۔ اس کے باوجود یہ حیاتیاتی سرگرمی اچھی طرح انجام دے سکتے ہیں اور ان کا سطحی رقبہ بھی ذیادہ ہوتا ہے۔
دونوں اقسام کے ذرات دھاتی آکسائیڈز پر مشتمل ہیں اور پہلے ہی ادویہ اور کارخانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ زنک آکسائیڈزبیکٹیریا کے خلاف مؤثر پائے گئے ہیں اور انہیں آلودہ اور خراب زخموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کی افادیت جاننے کا ایک طریقہ سی اے ایم ایسے کہلاتا ہے جس کا اوپر تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔
اس کے بعد ہائیڈروجل پیوند کی افادیت اور انجیوجنیسس کو جاننے کے لیے خاص طرح کی اسکیننگ ٹننلگ مائیکروسکوپ اور دیگر طریقے استعمال کیے گئے۔  ماہرین کے لیے یہ خوشی کا لمحہ تھا جب اس نے تیزی سے زخم بھرے ۔ تاہم زنک آکسائیڈ نینوذرات کے مقابلے میں زنک پرآکسائیڈ نینو ذرات نے بہتر کارکردگی دکھائی اور خون کی نالیوں کی افزائش میں مددگار ثابت ہوئے ۔ اس لحاظ سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی دریافت بھی ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ٹشوانجینیئرنگ کے تحت بنائے جانے والے پیوند میں تین خواص کا ہونا لازمی ہے۔ اول وہ خون کی رگیں بناسکیں، وقت پر ازخود گھل کر ختم ہوسکے اور سوم کسی قسم کے زہریلے اثرات اس میں نہ پائے جاتے ہوں۔ آئی آر سی بی ایم کے پیوند میں یہ تینوں خاصیتیں ہیں جو جلنے کے بعد گہرے زخموں والے مریضوں کے لیے امید کی ایک کرن بن سکتی ہے۔
تجربہ گاہ سے مریض تک
اگلے مرحلے میں ہائیڈروجل کو براہِ راست انسانوں پر آزمایا جائے گا  جس کی کامیابی کے بعد اسے تجارتی سطح پر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ ڈاکٹر محمد یار نے بتایا کہ ’ میری اس تحقیق کا سب سے مشکل کام ایسے کم خرچ اور مصنوعی جلد کی تیاری تھا جس سے پاکستان میں جھلسے ہوئے مریض فائدہ اٹھاسکیں۔ یہ صرف اسی صورت ممکن تھا کہ ملکی خام مال کو استعمال کرتےہوئے مصنوعی جلد بنائی جاسکے۔‘
ڈاکٹر محمد یار نے بتایا کہ اس تحقیق میں پاکستان کے ممتاز پلاسٹک سرجن سے قریبی روابط ہیں تاکہ وہ اس کے نتائج کا بغور جائزہ لے سکیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سال 2016 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دنیا میں ہرسال  265,000 افراد جھلس کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں 50 فیصد جلد جھلسنے والے مریضوں کی 98 فیصد تعداد ہلاک ہوجاتی ہے۔ اسی لیے پاکستانی آبادی کو مصنوعی جلد کی اشد ضرورت ہے تاکہ کم خرچ مصنوعی پیوند کے ذریعے ان کی جان بچائی جاسکے۔
میو ہسپتال لاہور میں پلاسٹک اور برن یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر مستحسن بشیر کہتے ہیں کہ مصنوعی جلد کی تحقیقات ایک مستند بین الاقوامی جریدے میں شائع ہوئی ہیں جو اس کی افادیت ظاہر کرنے کی ایک سند ہے۔ تاہم ضرورت ہے کہ انسانوں پر آزمائش سے قبل اسے جانوروں پر مزید آزمانے کی ضرورت ہے۔
کامسیٹس میں آئی آر سی بی ایم کے سربراہ ڈاکٹر عاکف انور چوہدری کے مطابق ان کے ادارے میں  20 سے زائد ایسے ماہرین کام کررہے ہیں جنہوں نے بین الاقوامی ممالک سے ڈاکٹریٹ کی ہے ۔ نوجوان سائنسدانوں کی یہ ٹیم کئی اہم شعبوں پر کام کررہی ہے جن میں ہڈیوں کی مرمت کے ساتھ ساتھ ٹشوز کی دوبارہ افزائش (ری جنریشن)، دانتوں کے مٹیریلز اورطب کے لیے بایوسینسرز کی تیاری جیسے اہم امور شامل ہیں۔ مزید اشتراک و تعاون اور مالی معاونت سے ہی یہ تحقیق مریض کی رسائی تک پہنچ سکتی ہے۔
اس وقت بازار میں ایف ڈی اے سے منظور شدہ واحد مصنوعی جلد انٹیگرا استعمال ہورہی ہے جس کے چار مربع سینٹی میٹر پیوند کی قیمت قریباً 80 ہزار روپے ہے جو امیر ترین افراد کی بھی دسترس سے باہر ہے۔ اگر مصنوعی جلد کا کوئی کم خرچ متبادل سامنے آتا ہے تو یہ ایک بہت اہم سنگِ میل ہوگا۔
بین الاقوامی پیٹنٹ
اس سے قبل ڈاکٹر محمد یار کی ٹیم نے اپنی ایجاد پر ملکی اور امریکی پیٹنٹ حاصل کی ہے جس کے تحت زخموں کو مندمل کرنے کا ایک اور پیوند بنایا گیا تھا جو خون کی نالیوں کی افزائش کرکے زخموں کو تیزی سے مندمل کرنےکی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس پیوند کو تجربہ گاہ میں چوہوں پر آزمایا گیا تو اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ اب اس کی انسانوں پر آزمائش کی کوشش کی جارہی ہے اور اس ضمن میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) سے ایک کروڑ چالیس لاکھ کی گرانٹ بھی مل چکی ہے۔ یہ فنڈ ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ فنڈ کےتحت جاری کیا گیا ہے۔